India's Supreme Court orders river links project to proceed
Posted by Labels: Environmental Issues, India, River and Ocean, UrduIndia's Supreme Court has ordered the government to implement an ambitious project to link major rivers in the region "in a time-bound manner".
The court also appointed a committee to plan and implement the project.
The judges said the project had been long delayed, resulting in an increase in its cost.
In 2002, the government announced plans to link major rivers in the region to reduce persistent water shortages in parts of India after a court order.
The project was announced by then-Prime Minister Atal Bihari Vajpayee who said the scheme will "free India from the curse of floods and droughts".
He also set up a task force to get the project going.
But the project has remained on paper for the last 10 years.
Project opposed
On Monday, the three-judge bench, headed by Chief Justice SH Kapadia, said the central and the state governments should participate for the "effective" implementation of the river-linking project "in a time-bound manner".
It is not clear what timeframe the court envisions.
"We direct the Union of India to forthwith constitute a committee for interlinking of rivers," the bench said, adding that "we direct the committee to implement the project".
The project aims to link 30 major rivers and will involve diverting the Ganges and the Brahmaputra - two of India's biggest rivers.
It requires the construction of large dams within India, Nepal and Bhutan, requiring international agreements with these countries.
The project was opposed by India's neighbours and environmentalists.
Bangladesh said diversion of water from these rivers would harm its interests - while environmentalists said the project would cause an ecological disaster.
But India says it must enhance its irrigation potential to meet its demand for grain to feed an estimated population of 1.5 billion by 2050.
The river-linking project was first devised in India in 1980 and has been under discussion ever since.
عدالت نے اس پر عمل درآمد کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی بھی ہدایات دی ہیں تاکہ اس پر باقاعدگی سے کام ہو سکے۔
ملک کے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کا منصوبہ کئی برس پرانا ہے اور اس میں تاخیر کے سبب ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ ہونے کی وجہ سے عدالت نے یہ ہدایات جاری کی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا:’ ہم دریاؤں کو جوڑنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہیں۔ ہم کمیٹی کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائے۔‘
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس منصوبے میں پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی ہے جس سے خرچ بہت زیادہ بڑھ گيا ہے۔
عدالت کے حکم کے مطابق کمیٹی میں آبی وسائل کے وزیر، اس محکمہ کے سیکریٹریز اور وزارت ماحولیات کے سینیئر حکام سمیت دوسری وزارتوں کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائیگا۔
اس میں ریاستی حکومتوں کے خصوصی نمائندے، دو سرکردہ سماجی کارکن اور اس معاملے میں سپریم کورٹ کے معاون وکیل رنجت کمار کو بھی شامل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
"ہم دریاؤں کو جوڑنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہیں۔ ہم کمیٹی کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائے۔"
ملک کے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کا منصوبہ دو ہزار دو میں اس وقت کی اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے پیش کیا تھا اور اس کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دیا گيا تھا۔
اس کا مقصد ایک ہی موسم میں بعض علاقوں میں زبردست سیلاب اور دوسرے علاقوں میں سوکھے کی صورت حال سے نمٹنا تھا اور آبپاشی کے نظام کو مزید بہتر بنانا ہے۔
اگر ملک کے بڑے دریا آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیں جائیں تو طغیانی والے دریاؤں کا پانی ان علاقوں کی طرف موڑا جا سکے گا جہاں پانی کی قلت ہوگي۔
اس سے سیلاب کی صورت حال سے بچنے میں مدد ملے گی اور قحط زدہ علاقوں میں بھی وافر مقدار میں پانی پہنچایا جا سکے گا۔
لیکن ماحولیات کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے اس منصوبے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ یہ منصوبہ قدرتی عمل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے کم نہیں اور اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ایک تخمینے کے مطابق اس منصوبہ پر تقریبا پانچ لاکھ کروڑ روپے کی لاگت آئیگی اور اسے دو ہزار سولہ تک مکمل کرنا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ملک کے دریاؤں کو جوڑنے سے متعلق منصوبے پر کام جلد شروع کرے۔
عدالت نے اس پر عمل درآمد کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی بھی ہدایات دی ہیں تاکہ اس پر باقاعدگی سے کام ہو سکے۔
ملک کے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کا منصوبہ کئی برس پرانا ہے اور اس میں تاخیر کے سبب ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ ہونے کی وجہ سے عدالت نے یہ ہدایات جاری کی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا:’ ہم دریاؤں کو جوڑنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہیں۔ ہم کمیٹی کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائے۔‘
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس منصوبے میں پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی ہے جس سے خرچ بہت زیادہ بڑھ گيا ہے۔
عدالت کے حکم کے مطابق کمیٹی میں آبی وسائل کے وزیر، اس محکمہ کے سیکریٹریز اور وزارت ماحولیات کے سینیئر حکام سمیت دوسری وزارتوں کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائیگا۔
اس میں ریاستی حکومتوں کے خصوصی نمائندے، دو سرکردہ سماجی کارکن اور اس معاملے میں سپریم کورٹ کے معاون وکیل رنجت کمار کو بھی شامل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
"ہم دریاؤں کو جوڑنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہیں۔ ہم کمیٹی کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائے۔"
ملک کے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کا منصوبہ دو ہزار دو میں اس وقت کی اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے پیش کیا تھا اور اس کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دیا گيا تھا۔
اس کا مقصد ایک ہی موسم میں بعض علاقوں میں زبردست سیلاب اور دوسرے علاقوں میں سوکھے کی صورت حال سے نمٹنا تھا اور آبپاشی کے نظام کو مزید بہتر بنانا ہے۔
اگر ملک کے بڑے دریا آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیں جائیں تو طغیانی والے دریاؤں کا پانی ان علاقوں کی طرف موڑا جا سکے گا جہاں پانی کی قلت ہوگي۔
اس سے سیلاب کی صورت حال سے بچنے میں مدد ملے گی اور قحط زدہ علاقوں میں بھی وافر مقدار میں پانی پہنچایا جا سکے گا۔
لیکن ماحولیات کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے اس منصوبے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ یہ منصوبہ قدرتی عمل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے کم نہیں اور اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ایک تخمینے کے مطابق اس منصوبہ پر تقریبا پانچ لاکھ کروڑ روپے کی لاگت آئیگی اور اسے دو ہزار سولہ تک مکمل کرنا تھا۔
0 comments:
Posting Komentar